ساحل آن لائن - سچائی کا آیئنہ

Header
collapse
...
Home / اسپورٹس / بسیرہاٹ میں بی جے پی وفدکوروکا گیا ، ہوائی اڈے سے براہ راست پولیس اسٹیشن لے جایا گیا

بسیرہاٹ میں بی جے پی وفدکوروکا گیا ، ہوائی اڈے سے براہ راست پولیس اسٹیشن لے جایا گیا

Sat, 08 Jul 2017 18:47:30  SO Admin   S.O. News Service

نئی دہلی، 8؍جولائی(ایس او نیوز/آئی این ایس انڈیا )مغربی بنگال کے بسیرہاٹ میں بھڑکے تشدد کے بعد مختلف سیاسی پارٹی کے لیڈر علاقے میں جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔بی جے پی کا مرکزی سطح کا وفد وہاں پہنچ چکا ہے، یہ وفد بسیرہاٹ جانے کے لیے نکلا، لیکن پولیس نے انہیں کو مدھیم گرام میں روک لیا، ان کو روکنے کے بعد پولیس اور بی جے پی وفد کے درمیان جانے کو لے کر تکرار بھی ہوئی، بی جے پی کے تین ممبران پارلیمنٹ میناکشی لیکھی، اوم ماتھر اور ستیہ پال سنگھ کو حراست میں لے کر کولکتہ ہوائی اڈے کے پولیس اسٹیشن لے جایا گیا۔واضح رہے کہ اس سے پہلے روپا گنگولی کی قیادت میں بسیرہاٹ جا رہے بی جے پی کے ریاستی سطح کے وفد کو پولیس نے مائیکل نگر میں روک لیا تھا، وہیں کانگریس کے وفد کو پولیس نے باراسات ضلع میں روکا دیاتھا۔وہین ہفتہ کو کچھ دنوں بعد دکانیں اور بازار کھلے ہیں اور مقامی ٹرینیں معمول کے مطابق پر چل رہی ہیں، لیکن بی ایس ایف کے اہلکار گشت کررہے ہیں اور ریاستی پولیس بھی بڑی تعداد میں تعینات ہے۔

قابل ذکرہے کہ مغربی بنگال کے بسیرہاٹ میں جمعرات سے کشیدگی پیدا ہونے کی خبر کے بعد پولیس نے آنسو گیس کے گولے چھوڑے اور لاٹھی چارج کیا،اس کے علاوہ ریاستی حکومت نے لوگوں کو مبینہ طور پر اکسانے کو لے کر کچھ تنظیموں پر پابندی لگانے کا فیصلہ بھی کیا ہے ۔ایک سینئر پولیس افسر نے بتایاکہ ضلع کے بدوریا میں فرقہ وارانہ تشدد کے بعد بسیرہاٹ قصبے اور سٹیشن کے علاقے میں دوبارہ کشیدگی کی صورتحال پیدا ہو گئی ہے ، مشتعل بھیڑ کو منتشر کرنے کے لیے پولیس کو آنسو گیس کے گولے داغنے پڑے اور لاٹھی چارج کرنا پڑا۔

غورطلب ہے کہ بدوریا اور اس کے ارد گرد کے علاقوں میں ایک قابل اعتراض فیس بک پوسٹ کو لے کر فرقہ وارانہ جھڑپ ہو گئی تھی، ایک نوجوان کی جانب سے کئے گئے ایک انتہائی قابل اعتراض فیس بک پوسٹ کو لے کر بدوریا اور اس کے ارد گرد کے علاقوں، کیوشابازار ، بانس تلا، رام چند رپور اور تین تلیا میں فرقہ وارانہ فسادات بھڑک گئے تھے، ملزم نوجوان کی گرفتاری کے بعد بھی دونوں فرقوں کے درمیان جھڑپیں ہوئیں، سڑک کو جام کیا گیا، دکانوں میں توڑپھوڑ کی گئی اور ٹرینوں کو آگ کے حوالے کر دیا گیا۔حالات کو قابو میں کرنے کے لیے ریاستی حکومت کو بسیرہاٹ، بدوریا، سوروپ نگر اور ڈے گنگا میں انٹرنیٹ خدمات کو عارضی طور پر معطل کرنا پڑا ، تاکہ سوشل میڈیا کے ذریعے افواہ پھیلنے سے روکا جا سکے۔


Share: